پاکستان میں چین کی طرح سیاسی انقلاب کی ضرورت ہے جو موزے تونگ کی قیادت میں 1949 میں لایا گیا تھا ۔ لیکن ایسا موجودہ پارلیمانی نظام حکومت میں ممکن نہیں، کیونکہ یہ نظام کرپٹ، جاہل اور ان پڑھ سیاستدانوں کا گڑھ بن گیا ہے. پاکستان میں صدارتی نظام حکومت کی تیاری اس سلسلے کی ایک کڑی ہے. عمران خان اصلاح کی کوشش کر رہا ہے. لیکن ملک معاشی طور پربد حال ہے اور کوئی جادو کی چھڑی کسی کے پاس نہیں کہ ایک دم پاکستان اس معاشی بدحالی سے نکل سکے. عمران خان اپنی پارٹی کے اندر اصلاحات بھی کر رہا ہے کئے ایک وزرا کو فارغ بھی کیا ہے. لیکن انہیں پھر بھی پارٹی کے اندر سے بھی چیلنجز کا سامنا ہے. سب سے زیادہ مخالفت زرداری لیگ اور نواز لیگ کی طرف سے ہے جو عمران خان کے اٹھاۓ گئے اچھے کاموں کی بھی صرف سیاسی بنیاد پر مخالفت پر تلے ہوئے ہیں. مدارس کو قومی دھارے میں لانا اور انکے لئے نصاب مرتب کرنے کی ذمہ داری وزارت تعلیم کے سپرد کرنا بہترین اقدام ہے. ہمیں اسکی حمایت/تعریف کرنی چاہیے. صدارتی نظام حکومت کی تشکیل اگر سیاسی طور پر نہیں ہوا تو پھر فوجی ڈنڈے سے ہوگا اور یہ کام IK کے موجودہ دو سے پانچ سالوں میں ہی ہوگا. پھر پاکستان کے کرپٹ سیاست دانوں، جاگیر داروں اور لٹیروں کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو انقلاب چین کے وقت ہوا تھا. پاکستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا جسمیں ترقی، خوش حالی اور کامیابی ہوگی. پاکستان کا شمار دنیا کے اچھے ملکوں میں ہوگا. اگرIK کے دور میں ایسا نہیں ہوجاتا ہے تو پھر پاکستان کا خدا حافظ ہی ہے. تین ، تین ، چار، چار بار آزمائے ہوئے پارٹیوں کو پھر آزمانا جہالت کے سوا کچھ نہیں ہے. جو لوگ ابھی بھی زرداری اور نواز شریف کو اپنا لیڈر سمجھتے ہیں انکی سوچ پہ حیرت ہوتی ہے اور افسوس ہی کیا جاسکتا ہے. میں ایک نیوٹرل انالسٹ ہوں میرا تعلق کسی بھی پارٹی سے نہیں ہے۔ میرے تجزیے کو کسی بھی سیاسی یا گروہی آنکھ سے نہ دیکھا جائے.
رات کو کاٹنا ہوتا ہے سحر ہونے تک
بیج کو چاہیے کچھ وقت شجر ہونے تک (باصر)
ارشد شیدائی..