Thursday, May 28, 2020

لوگ


ہائے یہ غربت کے مارے لوگ 
یہ ہمارے پیارے پیارے لوگ

انتخابات میں پھراستعمال ہونگے 
کتنے سادہ ہیں یہ ہمارے لوگ 


ارشد شیدائی      

غربت


جینا ہے تو غربت کو مٹا کر جیو 
دہرسے جہالت کوبھی ہٹا کر جیو

کر کے ناداروں کی کوئی خدمت 
دنیا میں تھوڑی نیکی کما کر جیو 


ارشد شیدائی    

ایٹم بم یا خوش حالی

 ایٹم بم بھی بناؤ تم 
شہرت بھی کماؤ تم 
ایک بات سمجھاؤ تم
پھر جشن بھی مناؤ تم 

کیا غربت ختم ہو گئی ہے 
خودکشی کم ہو گئی ہے
اور ترقی آدم ہوگئی ہے
تعلیم بھی فراہم ہو گئی ہے

نہیں توتم پھرسوچ  لینا 
خود کو دیا ہے دھوکا
ایک دن کا کیا دھماکا 
پھرغربت کا رونا رونا  

ارشد شیدائی 
اپریل ٢٨ ٢٠٢٠

Monday, May 25, 2020


امن سے یہ زندگی ہے 
امن سے ہر خوشی ہے 
امن سے ہی ترقی ہے 
امن میں وہ روشنی ہے 

امن ایک لازوال دولت 
امن ہی بے مثال طاقت 
امن الله کی ہے نعمت 
دعا ہے رہے یہ رحمت

امن کی نعمت کو ہاتھ سے جانے نہ دینا 
پھر سے دھرتی میں خون بہانے نہ دینا

پہلےایسی آزمائشوں سے گزرے ہیں بہت
پھر کسی سازش کو یہاں آزمانے نہ دینا

صبر، برداشت، احترام و برد باری سے 
امن کی روشنی کو یہاں بجھانے نہ دینا


ارشد شیدائی

ارشد علی شیدائی 

کہتے ہیں لوگ دنیا میں محبت فضول ہے 
 جن سے بچھڑنا ہو ان سے الفت فضول ہے 

رہنا ہے تو سبوں سے مروت سے رہو 
اس دو دن کی دنیا میں کدورت فضول ہے 

معیار ایک نہ ہو تو اسکی جستجوں  پھر کیوں ؟
جو چیز لا حاصل ہو اسکی چاہت فضول ہے 

ظاہری خدوں خال سے معیار کو یوں مت پرکھو 
نہ ہو سیرت اچھی تو پھر صورت فضول ہے 

ہو جائے زلف گیرہ گیر اس جہاں میں گرکوئی
ایسے عاشقوں کے لئے تو قیامت فضول ہے 

ملنی ہے تو ملے آسائشیں عمر بھر کے لئے 
 ایک دن کے لئے ملے ایسی راحت فضول ہے  

 ہے جو کچھ تمہارے پاس وہ نیکی میں کم آئے
جو مبتلائے غرور کرے ایسی دولت فضول ہے

ترک تعلق کی بات سے شیدائی وحشت فضول ہے 
جو بت بات پہ بگڑے ایسی طبیت فضول ہے 

Wednesday, May 20, 2020


کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے
عہدوں کی بھی بڑی ذمہ داری ہے

پرفائدے میں صرف وہی رہے گا
جسکا انتخابات میں پلہ بھاری ہے

ارشد شیدائی

ارشد شیدائی 

گلگت ٢٠ مئی ٢٠٢٠

کتنے  دکھ  جیلے ہیں ہم  نے زمانے میں
 کۓ  سال  گزرے  انہیں ہمیں آزمانے میں

 ہم نے وہ  چیز  پالی  ہے  بالا آخر
 جو نہیں ملتی باد شاہ کے خزانے میں

جو  کہنا ہے سادہ لفظوں میں  کہ ڈالو
 حقیقت کو نہ چھپاؤ  کسی  فسانے  میں

 صدیاں لگ جاتی ہیں تعمیر ملت میں اور 
 چند ساعتیں درکار ہوتی ہیں آگ لگانے  میں

 عہدے شہرتیں دنیا میں ملتے رہیں گے 
 لوگ  مصروف ہوں گے  تجھے گرانے میں

ہم بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے روٹھ جانے میں 
اور وہ بھی دیر نہیں لگاتا ہمیں منانے میں  


Sunday, May 17, 2020


مرشد کا بغض، ہماری جدوجہد اور الله کی مدد 

 تم نے ہر اک راستہ ہمارا بند کر دیا تھا مرشد 
مثل بیج زمین بوس ہوکر خود کو نکھارا ہے 

کہدو زمینی خداؤں سے ہم ابھی کھل گئے ہیں 
وہ دور تمہارا تھا اے مرشد، یہ دور ہمارا ہے 

تم اگر مسائل میں ڈوب  گئے ہو توبھی  کیا ہوا  
تیراک  کے لئے تو سمندر میں بھی کنارا ہے 

زمانے کے حوادث کا مقابلہ کرنا سیکھو دوستو 
ہم نے بھی کئی بار مرجھا کر خود کو سنوارا ہے 

اللہ  تیرا لاکھ  لاکھ  شکر ادا کرتا ہے یہ شیدائی
سہل کر دیا ہر مشکل جب بھی تجھے پکارا ہے 

ارشد شیدائی 
گلگت (١٧/٠٥/٢٠٢٠) 

Monday, May 11, 2020

ڈاکٹر کی عدم موجودگی اور ایک ماں کی پریشانی (ایک سچی کہانی)

تحریر: ڈاکٹرارشد علی شیدائی

یہ ایک سرکاری ہسپتال تھا، یہاں ایک وقت صرف ایک ڈاکٹر ڈیوٹی پر ہوتا تھا. ہسپتال کی بڑی عمارت میں ایک عجیب کیفیت تھی. ہر طرف سے مریضوں کے کراہنے کی آوازیں آرہی تھیں. وہاں پر نہ کوئی ڈاکٹر موجود تھا اور نہ کوئی اور ملازم. باہر سے آتے مریض یا تو واپس لوٹ رہے تھے یا پھر انتظار گاہ کی جانب قدم بڑھا رہے تھے. جہاں وہ شدت سے ڈاکٹر کے آنے کا انتظار کر رہے تھے.

ہمیں اس انتظار گاہ میں بیٹھے کوئی ایک گھنٹہ ہو گیا تھا. جب ہم ہسپتال میں پہنچے تھے تب ایک ملازم وہاں پر موجود تھا. ان سے ڈاکٹر کے بارے میں پوچھا تو پتا لگا کہ ڈاکٹر تو ١٢ سے ٢ بجے تک چھٹی کر لیتے ہیں. یہ خبر سن کر ہم ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے اور آخر ایک فیصلہ کر کرکے انتظار گاہ کی رہ لی تھی، جہاں پہلے سے کچھ لوگ ڈاکٹر کی انتظار میں مایوس بیٹھے تھے. مریض سسک رہے تھے اور انکی یہ حالت دیکھ کر ہمارے پاؤں تھر تھر کانپنے لگے. انتزاۓ گاہ میں لوگ آتے اور جاتے تھے، ڈاکٹر کی غیر موجودگی کی وجہ سے انکی پریشانی اور بڑھتی جا رہی تھی. باہر سے آئے مریضوں کے علاوہ ہسپتال میں پہلے سے داخل مریض بھی ڈاکٹر کا شدت سے انتظار کر رہے تھے. لوگ وہاں آپس میں چہ میگویاں کر رہے تھے، کہ اچانک ایک آواز زدگوش ہوئی. انتظار گاہ میں خاموشی طاری ہو گئی. لوگ سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کے جانب دیکھنے لگے. آواز قریب ہوتی گئی اور پتا چلا کہ یہ کسی عورت کے رونے کی آواز ہے.

چند لمحے بعد وہ عورت انتظار گاہ میں داخل ہوئی. لوگوں میں تجسس بڑھتا گیا. وہ عورت ابھی تک زارو قطار رو رہی تھی. وہ بہت پریشان اور غمگین تھی. اسکے آنکھوں سے آنسوں رواں تھے. خاتون نے ایک ننھا سا بچہ ہاتھوں میں تھاما ہوا تھا. آنسووں کے خشک نشان بچے کے چہرے پربھی عیاں تھے. خاتون بہت زیادہ پریشان اورغمگین تھی، وہ کبھی بچے کو پیار کر رہی تھی کبھی انتظار گاہ میں موجود لوگوں کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی پر کسی سے کچھ نہیں پوچھا اور کبھی ڈاکٹر کے آفس کی جانب امید کی نظروں سے تک رہی تھی. خاتون کسی سے کچھ پوچھے بغیر واپس پلٹی اور ڈاکٹر کے کلینک کے سامنے گئی. ڈاکٹر کی آفس میں غیر موجودگی سے وہ سخت مایوس ہوئی. انتظار گاہ میں موجود لوگ آپس میں اس عورت کے بارے میں باتیں کرنے لگے. لوگوں کی طرح میرے دل میں بھی طرح طرح کے خیالات جنم لینے لگے. مجھے لگا کہ شاید خاتون کو کوئی شدید چوٹ آئی ہوگی اور چوٹ کی شدت برداشت سے باہر ہے جو اس قدر رو رہی ہے. انہیں خیالات میں تھا کہ وہ خاتون واپس انتظار گاہ آئی. انکی پریشانی دیکھ کر میں نے چاہا کہ صاحبہ سے پریشانی کی وجہ دریافت کروں پرہمت نہیں ہوئی. تھوڑی دی بعد خاتون نے خود مجھ سے پوچھا، بھائی ڈاکٹر کہاں گئے ہیں ؟ میں نے کہا کہ ایک ملازم کے ذریعے یہ معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر ٢ بجے تک چھٹی کرتے ہیں.

اسی دوران ایک آدمی انتظار گاہ میں داخل ہوا وہ ہسپتال کا کوئی ملازم لگ رہا تھا. میں نے ان سے پوچھا، بھائی ڈاکٹر کب آئے گ؟ اسنے میری طرف حیرت سے دیکھا اور کہنے لگا، جناب ڈاکٹر تو ٤ بجے تک چھٹی کرتا ہے اور ٤ بجے کے بعد دوسرا ڈاکٹرشام کی ڈیوٹی کے لئے آتا ہے. یہ سن کر ہم سب بہت مایوس ہوئے. خاتون حد سے زیادہ پریشان اپنے منھے کو لئے ٹہلنے لگی. ایک عجیب سی بے چینی نے گھیرلیا. عورت کے رونے کی آواز سن کر ساتھ والے کمرے سے ایک بندہ باہر آیا جو ڈاکٹر صاحب کا اسسٹنٹ لگ رہا تھا جو بار بار ڈاکٹر کے کمرے میں جاکر ٹیلی فون اٹینڈ کر رہا تھا. اس نے خاتون کی اس پریشانی کی وجہ سے انہیں کمرے میں بلایا.

چند منٹ بعد وہ خاتوں واپس آئی اور میرے سامنے میز پر بیٹھ گئی . بچہ خاتون کے گود میں تھا اور باتیں کر سکتا تھا، ہم سے بار بار پوچھ رہا تھا، ڈاکٹر کہاں ہے ؟ میں نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر ابھی آنے والا ہے. خاتون اب بھی پریشان تھی مگر رونا تھم گیا تھا. انکے چہرے پر شدید پریشانی عیاں تھی. میں نے خاتون سے پوچھا بہن کیا مسلہ ہے جواتنی زیادہ پریشان ہو؟ وہ کہنے لگی کہ ابھی گھر پر بچہ اپنے کھلونے سے کھیل رہا تھا اچانک فرش پر پھسلا اور گر گیا. بچہ رونے لگا تو دیکھا ایک دانت سے خون نکل آیا ہے. اب اس بچے کو یہاں لے کرآئی ہوں تاکہ اسکا علاج کر وا سکوں. میں نے تعجب سے پوچھا بس اتنی سی بات تھی اور آپ اتنی زیادہ پریشان ہو گئی. وو کہنے لگی، بچے کا زخم مجھ سے دیکھا نہیں جاتا.میرا لخت جگر ہے یہ، اور میں اس کے لئے ہر تکلیف سہ سکتی ہوں. میں اسی کے واسطے جیتی ہوں. میرا جینا اسی کے لئے اور میرا مرنا بھی اسی کے لئے. اس عمر میں اگر بچے کی پرورش صحیح طریقے سے نہیں کر سکی تو مجھے عمر اسکا دکھ ستائے گا اور کل کو میں جوابدہ ہوں گی. میرا فرض پورا نہیں ہوگا. اسکا درد میرا درد ہے اور اسکا سکھ میرا سکھ.

میں نے خاتون کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ بہن پریشان ہونے کی ضرورت نہیں. بچہ ٹھیک ہے دانت سے اگر تھوڑا خون نکل آیا ہے تو ٹھیک ہو جائےگا. اگر دانت نکل بھی جاتا تو دوسرا دانت نکل آئےگا، کیوں کہ یہ دودھ کے دانت ہیں. بچہ خیریت سے ہے آپکو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، اللہ مالک ہے.

مسٹر داوود نے مجھ سے پوچھا کہ کیا ہمیں ٤ بجے تک انتظار کرنا ہوگا. میں نے کچھ سوچ کر کہا کہ ہمیں ابھی واپس جانا چاہئے کل صبح پھرآجائیں گے. ہم وہاں سے نکل گئے مگر خاتون اپنے بچے کو لیکر وہی پرڈاکٹر کے انتظار میں ٤ بجے تک بیٹھی رہی. اسکا بچہ اب ہنس رہا تھا اور ٹہل رہا تھا.

نوٹ : سکول کے زمانے کا لکھا ہوا یہ مضمون اپنےقارئین کی بینائیوں کی نذر ہے۔