Wednesday, June 10, 2020


ہم وہ قطرہ لافانی  کہاں کہ یارو ہم 
کہیں سوکھ نہ جائے سمندر ہونے تک

اب ایسا بھی ممکن نظر نہیں آتا  کہ  
ان سے باتیں کرے سحر  ہونے تک

وہ  کسی لالچ میں کہیں بک جائے گا 
ہمارے خلوص کا ان پہ اثر ہونے تک

عارضی دوستی اورمطلب کا رشتہ ہے
کب کسی نے ساتھ دیا ہے آخر ہونے تک 

Monday, June 1, 2020


صدائے دل کا اتنا بھی اثر کہاں ہے 
جو چاہے ملے ایسا مقدر کہاں ہے

جھوٹ، دھوکہ، رشوت اور سفارش 
یہ سب تو ہیں، انصاف مگر کہاں ہے 

ضمیر بکتا ہے یہاں ووٹر نامدار کا   
ووٹر کا خیال رکھے وہ رہبر کہاں ہے

منافقت پھیلی ہے ہر سوں جدھر دیکھو
باہر سے جو دکھتا ہے وہ اندر کہاں ہے 

مایوسی جسکی مقدار ہے ہائے غربت 
تاریک رات ہی ہے امید سحر کہاں ہے

جہالت اور نفرت تو پھیلائی جا رہی ہے 
جو درس محبت دے وہ دانشور کہاں ہے   

فرقہ واریت و تعصب کا درس عام  ہے 
امن و آشتی ملے جہاں وہ منبر کہاں ہے

تلاش میں جسکی در بدر پھرتا ہے شیدائی 
خلوص جہاں سے ملے وہ در کہاں ہے 

ارشد شیدائی    


کوئی تو ہو جنکا ایک نرالا انداز ہو 
جنکی دوستی پر ہمیں فخر ہو ناز ہو
کوئی تو ہو جنکو دوستی کا احساس ہو 
اوردکھ سکھ کے لمحوں میں وہ پاس ہو 
تنہا کھٹن راستوں پر جب رخت سفر ہوں  
کوئی تو ہو جنکی موجودگی کا احساس ہو
کوئی تو ہو جن سے خیالوں میں باتیں کرے 
وہ یہ سب جانتا ہو اور جو حقیقت شناس ہو