کورونا وبا کی وجوہات اور بڑھتے ہوئے مسائل
تحریر: ڈاکٹر ارشد علی شیدائی
اس وقت (٢٥ اپریل ) تک کورونا سے کل 2,833,791 افراد متاثر ہو چکے ہیں، جبکہ 197,355 افراد اس موزی مرض کا شکار ہوکر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور کل 807,578 خوش قسمت افراد صحت یاب ہو چوکے ہیں.
کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ چین کے شہر ووہان سے دسمبر کے وسط میں شروع ہونے والا کوڈ-١٩ اس تیزی کے ساتھ پوری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے گا.
کورونا وائرس کے شروعات کے حوالے سے متعدد قیاس آرا یاں ہیں. سائنسی نقطہ نظر سےکہا جا رہا ہے کہ یہ وائرس جنگلی جانوروں سے خاص کرچمگادڑ سے پھیلا ہے. اس سلسلے میں ٢ مارچ ٢٠١٩ میں یونیورسٹی آف چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے سائنسدانوں نے ایک سائنسی جریدے میں چھپے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ سارس اور میرس کی طرح کورونا وائرس کا پھیلاؤ چمگادڑ سے ہوگا اور یہ چین سے شروع ہوگا. یہی اب تک کی اصل سائنسی حقیقت ہے.
متعدی بیماریوں کے پھلاؤ میں موسمیاتی تبدیلی ایک اہم وجہ ہے. ہم نے قدرتی ماحول کو اپنی ضروریات کے لئے یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے. ٤ جولائی ٢٠١٨ کو انیتا افیلٹ اور ساتھی تحقیق کاروں نے ایک سائنسی آرٹیکل چھاپا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ پچھلی دہائی کے دوران ، چمگادڑوں کو نئے وائرس کے ایک بڑے ذرائع کے طور پر دکھایا گیاہے ۔ ان میں ایس آر اے ایس یا ایم ای آر ایس بلکہ ایبولا جیسے خطرناک کورونووائرس شامل ہیں۔ یہ خطرہ ممکنہ طور پر موجود ہے ، اور انسانی پیدا کردہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے محرکات کو تلاش کی جانی چاہئے۔ انتھروپائزڈ (تبدیل شدہ) ماحول ایسے ہی موزیک مناظر ہیں جو ایک ہی جگہ پر ہوں ، مختلف چمگادڑوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں جو عام طور پر مختلف نسلوں کے چمگادڑ ایک ساتھ نہیں مل پاتی ہیں۔ انتھروپائزڈ زمین چمگادڑ سے پیدا ہونے والے وائرس کو تیزی سے بڑھنے کا ذریعہ بن جاتی ہے. حالیہ برسوں میں انتہائی تیزی کے ساتھ ہونے والے جنگلات کی کٹائی کےعمل کے دوران نئے چمگادڑ سے پیدا ہونے والے وائرس پھیلنے کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ ممکنہ طور پر متعدی وائرسوں پر مشتمل چمگادڑوں کے ساتھ مویشیوں اور انسانوں کے کثرت سے ہونے والے رابطوں کی وجہ سے وائرس ایک دوسرے میں منتقل ہو جاتا ہے.
شروع میں جب یہ وبا چین میں پھیلا اور چین میں اس نے تباہی مچا دی، لوگ مرنے لگے اور چین کے تجارتی مراکز بند ہوگئے تب تمام ممالک نے چین کے ساتھ اپنے روابط ختم کردئے اور ایک لحاظ سے چین تنہا ہو گیا تو ایک طبقے کا خیال تھا کہ یہ چین کے خلاف ایک سازش ہے، چین کی ابھرتی ہوئی معیشت سے خوفزدہ امریکہ نے حیاتیاتی جنگی ہتھیار کے طور پر یہ وائرس چین پر مسلط کیا ہے. اس مفروضے کے حامی لوگ چین سمیت، روس اور پاکستان میں بھی پائے جاتے تھے/ہیں. چین نے اپنے موثر حکمت عملی اور بہترین انتظامات اور کارکردگی سے ووہان شہر سمیت پورے چین کو لاک ڈون میں رکھا اور مارچ کے وسط تک اس وبا پر قابو پا لیا. باقی ملکوں نے اس کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا اور یہ وبا دوسرے ملکوں میں پھیلنا شروع ہو گیا جس میں اٹلی، ایران، سویڈن، امریکہ، جرمنی اور کم و بیش ٢٠٠ ممالک میں پھیل گیا اور ابھی تک بہت تیزی سے پھیل رہا ہے. چین نے جب اس وبا پر قابو پا لیا اور یہ امریکہ میں خطرناک حدتک پھیلنا شروع ہوا تو ایک طبقہ اسکو چین کا پیدا کردہ حیاتیاتی ہتھیار کہنے لگا اس مفروضے کے حامی لوگ امریکا سمیت دوسرے یوروپی ممالک کے ہیں. خود صدر ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اسے چائنیز وائرس کہ کر پکارا.
کورونا وبا کی وجہ سے نہ صرف انسانی جانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ اسے اور بہت سارے معاشرتی و ذہنی مسائل جنم لے رہے ہیں. تمام ممالک کے معیشت کو شدید دھچکہ لگا ہے. اب صورت حال سنگین تر ہوتی جا رہی ہے. کورونا سے امیر و غریب ہر نسل و ذات کے لوگ متاثر ہو رہے ہیں. لیکن غریب لوگوں کو دو طرفہ خطرات لاحق ہیں، ایک طرف کورونا اور دوسری طرف بھوک و افلاس جینے نہیں دے رہا ہے. کورونا سے اگر بچ بھی جائے تو بھوک سے مرنے کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہوتا ہے کیوں کہ روزگار کے تمام ذرائع اب مفقود ہو چکے ہیں. اس وجہ سے بہت سے لوگ آجکل ذہنی صدمے اور پریشانی کا شکار ہیں.
کورونا وبا کی وجہ سے تمام تعلیمی ادارے بند ہو چکے ہیں جسکی وجہ سے تحتیق اور تدریس کا عمل بری طرح متاثر ہو کر رہ گیا ہے. پاکستان میں کچھ یونیورسٹیز نے آن لائن کلاسیس کا اعلان کیا ہے اور یہ پاکستان کے بڑے شہروں مثلا اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور اور فیصل آباد میں ممکن ہوسکتا ہے جہاں پر بجلی اور انٹرنیٹ کی سہولیات میسر ہیں لیکن یہ سہولیات گلگت-بلتستان میں نہ ہونے کی وجہ سے کثیر تعداد میں بچے تعلیم سے محروم ہیں اور ذہنی اذیت کا شکار ہیں. اس وقت گلگت-بلتستان میں بجلی کی شدید لوڈشیڈنگ جاری ہے اور انٹرنیٹ مہیا کرنے والا صرف ایک ہی ادارہ اسپیشل کمیونیکشن آرگنائزیشن کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا کوئی ادارہ میدان میں نہیں اور انٹرنیٹ کی رفتار انتہائی سست ہونے کی وجہ سے طلبہ کو آن لائن کلاسز لینے یا ویڈیو لیکچرز سننے میں بہت دشواری کا سامنا ہے. حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کورونا وبا کے اس مشکل وقت لوگوں کو بجلی اور انٹرنیٹ کی تیز رفتار سہولیات بہم پہنچائے اور لوگوں کو اس ذہنی کوفت سے نکالے.
اس وقت کورونا بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور ابھی تک کوئی ویکسین مارکیٹ میں نہیں آئی ہے. کچھ لیبارٹریز میں ویکسین پر کام ہو رہا ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ یہ کب تک انسانی استمعال کے لئے دستیاب ہوں گی.
اس وقت حکومت اور عوام کو چاہئے کہ وہ بہتر حکمت عملی اور دانشمندی کا مظاہرہ کریں. حکومت کو چاہئے کہ وہ عوام کو ضروری سہولیات بہم پہنچائے اور عوام پر لازم ہے کہ وہ حکومت کےبنائے ہوئے قوانین پر عمل کریں.