Tuesday, April 28, 2020


آج پھر  کیوں چھا ئی یہاں اداسی ہے 
ٹھنڈی شام، اندھیرا اور خاموشی ہے

کس کو فکر ہے انسانوں کے جنگل میں 
دشت ویران میں پھر ایک کلی پیاسی ہے  

مال و زر سب یہاں آنی جانی چیزیں ہیں
جستجوئے علم اچھا جو دولت  لافانی ہے 

غروروتکبراوقات بتاتی ہیں کسی  کی بھی 
عجزوانکساری ہی عظمت کی نشانی ہے

یہ وقت بھی آخر گزر جائے گا شیدائی 
کہتے ہیں ہر مشکل کے بعد آسانی ہے

ارشد شیدائی
4/5/2019
Beijing 



یہ دن بھی گزرجائیں گے 
ہم پھر سے پاس آئیں گے

قدرت کے سب عنایات کا 
ہم مل کے گیت گائیں گے

Saturday, April 25, 2020


سائنسی میدان اور پاکستانی حکمران
تحریر: ڈاکٹر ارشد علی شیدائی
سائنس میں ترقی کے لیے بہترین سائنسی ماحول، معیاری سائنسی تجربہ گاہیں، ماہر افراد، ضروری سہولیات و تجرباتی آلات، زمینی تحقیقاتی مراکز اور خلائی مصنوعی سیارے، تجسس و سائنسی رجہانات، تحقیق کاروں اور سائنسدانوں کے لیے مراعات اور حکومتی پولیسی میں ترجیحات اور عملی اقدامات شامل ہیں۔
کوئی بھی مذہبی یا غیر مذہبی شخص، معاشرہ یا ملک متذکرہ اوصاف کے حامل ہو سائنس میں ترقی اور کمال حاصل کر سکتا ہے۔
پاکستان کے سائنسی ترقی میں پیچھے رہ جانے کی بنیادی وجہ ترجیحات ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں نے کبھی سائنس کو پہلی ترجیح نہیں دی اور آہستہ آہستہ ہم آگے جانے کی بجاۓ تنزلی کا شکار رہے۔ انڈیا سے تو ہم پیچھے ہیں ہی لیکن اب بنگلادیش اور نیپال سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔
چین ایک کمیونسٹ ملک ہے اور جدید چین پاکستان کے بعد آذاد ہوا ہے لیکن سائنسی ترقی میں چین ہم سے کم از کم سو سال آگے ہے۔ اپنی مسلسل جدوجہد، محنت اور سائنسی ترقی کو اپنی اولین ترجیح رکھنے کی وجہ سے، پچھلے بیس سال کے قلیل عرصے میں اپنے ایجادات و مصنوعات کی موثر مارکیٹنگ کرکے آج دوسری سب سے بڑی عالمی طاقت بن کر ابھری ہے اور ترقی کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان اس وقت سائنسی اور معاشی میدان میں کہاں کھڑا ہے سب پاکستانیوں کو بخونی پتہ ہے۔ پاکستان کی یہ حالت حکمرانوں کی ناقص پالیسی اور نامناسب قومی ترجیحات ہیں۔ ہمارے حکمران قومی ترقی کی بجاۓ ذاتی منفعت دیکھتے رہے اور ملکی بجٹ ایسے غیر ضروری منصوبوں پہ لگایا جن کا قومی ترقی و خوشحالی سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ جس کی وجہ سے آج پوری قوم دنیا میں رسوا ہو رہی ہے۔ غربت دن بدن بڑھ رہی ہے امیر مزید امیر ہوتا جا رہا ہے اور غریب غریب تر۔
ماضی کے مسلم سائنسدانوں کے سائنسی کارناموں اور خدمات کو اپنے کھاتے میں ڈال کر اترانے اور جتانے والے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے مجاہدوں کو اب خواب غفلت سے جاگ کر حقیقت حال کا بغور مطالعہ کرنا ہوگا اور اپنے گریباں میں جھانکنا ہوگا۔ اپنے ذہنی سوچ کو وسیع کرکے علم جہاں سے بھی ملے اور جسے بھی ملے حاصل کرنے کی ترغیب دینی ہوگی۔ چاہے اس کے لیے چین جانا پڑے۔ یہی اسلامی درس ہے۔
دنیا دن دگنی اور رات چگنی ترقی کر رہی ہے آنے والے وقت میں وہی اقوام زندہ و پائندہ رہیں گی جنہوں نے سائنس میں ترقی کی ہوگی۔ سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بھی اپنی ترجیحات کو سائنسی رخ دینا ہوگا۔


کورونا وبا کی وجوہات  اور بڑھتے ہوئے مسائل 
تحریر: ڈاکٹر ارشد علی شیدائی 

اس وقت (٢٥ اپریل ) تک کورونا سے کل 2,833,791 افراد متاثر ہو چکے ہیں، جبکہ 197,355 افراد اس موزی مرض کا شکار ہوکر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور کل 807,578 خوش قسمت افراد صحت یاب ہو چوکے ہیں. 
کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ چین کے شہر ووہان سے دسمبر کے وسط میں شروع ہونے والا کوڈ-١٩ اس تیزی کے ساتھ پوری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے گا.
کورونا  وائرس کے شروعات  کے حوالے سے متعدد قیاس آرا یاں ہیں. سائنسی نقطہ نظر سےکہا جا رہا ہے کہ  یہ وائرس  جنگلی جانوروں سے خاص کرچمگادڑ سے پھیلا ہے. اس سلسلے میں ٢ مارچ ٢٠١٩ میں یونیورسٹی آف چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے سائنسدانوں نے ایک سائنسی جریدے میں چھپے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ سارس اور میرس کی طرح کورونا وائرس کا پھیلاؤ چمگادڑ سے ہوگا اور یہ چین سے شروع ہوگا. یہی اب تک کی اصل سائنسی حقیقت ہے. 
 متعدی بیماریوں کے  پھلاؤ میں موسمیاتی تبدیلی ایک اہم وجہ ہے. ہم نے قدرتی ماحول کو اپنی ضروریات کے لئے یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے. ٤ جولائی ٢٠١٨ کو انیتا افیلٹ اور ساتھی تحقیق کاروں نے ایک سائنسی آرٹیکل چھاپا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ  پچھلی دہائی کے دوران ، چمگادڑوں کو نئے وائرس کے ایک بڑے ذرائع کے طور پر  دکھایا گیاہے ۔ ان میں ایس آر اے ایس یا ایم ای آر ایس  بلکہ ایبولا جیسے خطرناک کورونووائرس شامل ہیں۔ یہ خطرہ ممکنہ طور پر موجود ہے ، اور انسانی پیدا کردہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے محرکات کو تلاش کی جانی چاہئے۔ انتھروپائزڈ (تبدیل شدہ) ماحول ایسے ہی موزیک مناظر ہیں جو ایک ہی جگہ پر ہوں ، مختلف چمگادڑوں کو  اپنی طرف راغب کرتے ہیں  جو عام طور پر مختلف نسلوں کے چمگادڑ ایک ساتھ نہیں مل پاتی ہیں۔ انتھروپائزڈ زمین چمگادڑ سے پیدا ہونے والے وائرس کو تیزی سے بڑھنے کا ذریعہ بن جاتی ہے. حالیہ برسوں  میں انتہائی تیزی کے ساتھ ہونے والے جنگلات کی کٹائی کےعمل کے دوران  نئے چمگادڑ سے پیدا ہونے والے وائرس پھیلنے کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ ممکنہ طور پر متعدی وائرسوں پر مشتمل چمگادڑوں کے ساتھ  مویشیوں اور انسانوں کے کثرت سے ہونے والے رابطوں کی وجہ سے وائرس ایک دوسرے میں منتقل ہو جاتا ہے. 

 شروع میں جب یہ وبا چین میں پھیلا اور چین میں اس نے  تباہی مچا دی، لوگ مرنے لگے اور چین کے تجارتی مراکز بند ہوگئے تب تمام ممالک نے چین کے ساتھ اپنے روابط ختم کردئے اور ایک لحاظ سے چین تنہا ہو گیا تو ایک طبقے کا خیال تھا کہ یہ چین کے خلاف ایک سازش ہے، چین کی ابھرتی ہوئی معیشت سے خوفزدہ امریکہ نے حیاتیاتی جنگی ہتھیار کے طور پر یہ وائرس چین پر مسلط کیا ہے. اس مفروضے کے حامی لوگ چین سمیت، روس اور پاکستان میں بھی پائے جاتے تھے/ہیں.  چین نے اپنے موثر حکمت عملی اور بہترین انتظامات اور کارکردگی سے ووہان شہر سمیت پورے چین کو لاک ڈون میں رکھا اور مارچ کے وسط تک اس وبا پر قابو پا لیا. باقی ملکوں نے اس کو زیادہ سنجیدگی سے  نہیں لیا اور یہ وبا دوسرے ملکوں میں پھیلنا شروع ہو گیا جس میں اٹلی، ایران، سویڈن، امریکہ، جرمنی اور کم و بیش ٢٠٠ ممالک میں پھیل گیا اور ابھی تک بہت تیزی سے پھیل رہا ہے. چین نے جب اس وبا پر قابو پا لیا اور یہ امریکہ میں خطرناک حدتک پھیلنا شروع ہوا تو ایک طبقہ اسکو چین کا پیدا کردہ حیاتیاتی ہتھیار کہنے لگا اس مفروضے کے  حامی لوگ امریکا سمیت دوسرے یوروپی ممالک کے ہیں. خود صدر ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران  اسے  چائنیز وائرس کہ کر پکارا. 
         
کورونا وبا کی وجہ سے نہ صرف انسانی جانوں کو  نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ اسے اور بہت سارے معاشرتی و ذہنی مسائل جنم لے رہے ہیں. تمام ممالک کے معیشت کو شدید دھچکہ لگا ہے. اب صورت حال سنگین تر ہوتی جا رہی ہے. کورونا سے  امیر و غریب ہر نسل و ذات کے لوگ متاثر ہو رہے ہیں. لیکن غریب لوگوں  کو دو طرفہ خطرات لاحق ہیں، ایک طرف کورونا اور دوسری طرف بھوک و افلاس جینے نہیں دے رہا  ہے. کورونا سے اگر بچ بھی جائے تو بھوک سے مرنے کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہوتا ہے کیوں کہ روزگار کے تمام ذرائع اب مفقود ہو چکے ہیں. اس وجہ سے بہت سے لوگ آجکل ذہنی صدمے اور پریشانی کا شکار ہیں. 
کورونا وبا کی وجہ سے تمام تعلیمی ادارے بند ہو چکے ہیں جسکی وجہ سے تحتیق اور تدریس کا عمل بری طرح متاثر ہو کر رہ گیا ہے. پاکستان میں کچھ  یونیورسٹیز نے آن لائن کلاسیس کا اعلان کیا ہے اور یہ پاکستان کے بڑے شہروں مثلا اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور اور فیصل آباد میں ممکن ہوسکتا ہے جہاں پر بجلی اور انٹرنیٹ کی سہولیات میسر ہیں لیکن یہ سہولیات گلگت-بلتستان میں نہ ہونے کی وجہ سے کثیر تعداد میں بچے تعلیم سے محروم ہیں اور ذہنی اذیت کا شکار ہیں. اس وقت گلگت-بلتستان میں بجلی کی شدید لوڈشیڈنگ جاری ہے اور انٹرنیٹ مہیا کرنے والا صرف ایک ہی ادارہ اسپیشل کمیونیکشن آرگنائزیشن کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا کوئی ادارہ میدان میں نہیں اور انٹرنیٹ کی رفتار انتہائی سست ہونے کی وجہ سے طلبہ کو آن لائن کلاسز لینے یا ویڈیو لیکچرز سننے میں بہت دشواری کا سامنا ہے. حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کورونا وبا کے اس مشکل وقت لوگوں کو بجلی اور انٹرنیٹ کی تیز رفتار سہولیات بہم پہنچائے اور لوگوں کو اس ذہنی کوفت سے نکالے. 
اس وقت کورونا بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور ابھی  تک کوئی ویکسین مارکیٹ میں نہیں آئی ہے. کچھ لیبارٹریز میں  ویکسین پر کام ہو رہا ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ یہ کب تک انسانی استمعال کے لئے دستیاب ہوں گی. 
اس وقت حکومت اور عوام کو چاہئے کہ وہ بہتر حکمت عملی اور دانشمندی کا مظاہرہ کریں. حکومت کو چاہئے کہ وہ عوام کو ضروری سہولیات بہم پہنچائے اور عوام پر لازم ہے کہ  وہ حکومت کےبنائے ہوئے قوانین پر عمل کریں.       

Thursday, April 23, 2020

سچ کی طاقت
ارشد اے شیدائی 

راستی سیدھی سڑک ہے اس میں کچھ کھٹکا نہیں 
کوئی رہرو  آج تک  اس راہ  میں  بھٹکا  نہیں

سچ ایک تناور اور سایہ دار درخت ہے جسکی چاؤں میں انسان ہمیشہ محفوظ و مامون رہتا ہے. حوادث کی غم خیز آندیاں اس درخت کی سلامتی کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتیں. سچ انسانیت کا جوہر ہے.  یہ  نہ طاقت سے دبتا ہے نہ زندان میں قید ہوتا ہے. سچائی کے سبھی مبلغین نے چھوٹے سے چھوٹا جھوٹ بولنے سے بھی منح کیا ہے. حضرت عبدللہ بن عمر کی روایت سے حضور اکرم (ص۔ع ) کی یہ حدیث قابل غور ہے کہ "جب کوئی انسان جھوٹ بولتا ہے تو فرشتے اس جھوٹ کی وجہ سے اس سے دور رہتے ہیں". مشاہدات نے ثابت کیا ہے کہ ہر زمانے اور ہر معاشرے میں سچ کی مخالفت کرنے والے کچھ عناصر ضرور ہوتے ہیں مگر انسان کو گھبرانا نہیں چاہئے. آخر جیت سچ ہی کی ہوتی ہے. انسانی کردار کی سب سے بڑی دولت سچ ہے. مگرانسان جھوٹ کے ہاتھوں اس دولت کو لوٹا کرخود کو کنگال بنا دیتا ہے. افلاس و تہی دامنی کی یہ سب سے بڑی قسم ہے- 
سچائی کے راستے پہ چلتے رہو 
صدا  پھولتے اور  پھلتے  رہو 
ایک قافلہ کہیں جا رہا تھا. راستے میں ڈاکوآ ئے اور قافلے  کے سارے مال و اسباب، سونا سب کچھ چھین لیا. اسی قافلے میں ایک چھوٹا سا لڑکا بھی تھا. ایک ڈاکو اس لڑکے کے پاس آیا اور پوچھا بتاؤ تمہارے پاس کیا ہے ؟ لڑکے نے جواب دیا " میرے پاس ٢٠٠ روپے ہیں " ڈاکو نے اعتبار نہیں کیا اور چلا گیا. دوسرا ڈاکو آیا اور پوچھا تو لڑکے نے یہی جواب دیا. ڈاکو لڑکے کو اپنے سردار کے پاس لے گیا اور بولا کہ جناب عالی یہ لڑکا جھوٹ بولتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے پاس ٢٠٠ روپئے ہیں. سردار نے پوچھا بتاؤ تمہارے پاس کیا ہے؟ بولا جناب میرے پاس٢٠٠ روپئے  کپڑوں میں سلے ہوئے ہیں. ڈاکو نے تلاشی لی اور جیب سے ٢٠٠ روپئے نکال لئے. سردار حیران رہ گیا اور لڑکے سے پوچھا تم نے اپنے روپے کیوں نہیں چھپا لیا ؟ اور سچ کیوں کہا. لڑکا بولا میری والدہ نے مجھے نصیحت کی تھی کہ بیٹا تم کبھی بھی جھوٹ نہ بولنا، اس لئے میں نے جھوٹ نہیں بولا. سردار دائر تک سوچتا رہا، پھر توبہ کیا اور کہا کہ یہ چھوٹا بچہ اپنی ماں کا حکم کس طرح بجا لاتا ہے. جبکہ ہم اپنے خدا کا حکم نہیں مانتے ہیں اور ڈاکہ زنی کرتے ہیں. آج کے بعد میں بھی اپنی اس بری عادت کو ختم کروں گا. اس نے قافلے سے چھینے ہوئے تمام مال انہیں واپس کر دئیے. یہ ہے سچ اور یہ ہے اس کا پھل.
شیر دل بن جاؤ تم راستی اختیار کر کے 
شیریں زباں بن کے اوروں کو سرشار کر کے 
راستی کو شیوہ بنا اے شیدائی آپ اپنا 
دل میں بہار کر خدا کو مدد گار کر کے

نوٹ: سکول کے زمانے کا لکھا ہوا یہ مضموں اپنےقارئین کی نظر ہے