سائنسی میدان اور پاکستانی حکمران
تحریر: ڈاکٹر ارشد علی شیدائی
سائنس میں ترقی کے لیے بہترین سائنسی ماحول، معیاری سائنسی تجربہ گاہیں، ماہر افراد، ضروری سہولیات و تجرباتی آلات، زمینی تحقیقاتی مراکز اور خلائی مصنوعی سیارے، تجسس و سائنسی رجہانات، تحقیق کاروں اور سائنسدانوں کے لیے مراعات اور حکومتی پولیسی میں ترجیحات اور عملی اقدامات شامل ہیں۔
کوئی بھی مذہبی یا غیر مذہبی شخص، معاشرہ یا ملک متذکرہ اوصاف کے حامل ہو سائنس میں ترقی اور کمال حاصل کر سکتا ہے۔
پاکستان کے سائنسی ترقی میں پیچھے رہ جانے کی بنیادی وجہ ترجیحات ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں نے کبھی سائنس کو پہلی ترجیح نہیں دی اور آہستہ آہستہ ہم آگے جانے کی بجاۓ تنزلی کا شکار رہے۔ انڈیا سے تو ہم پیچھے ہیں ہی لیکن اب بنگلادیش اور نیپال سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔
چین ایک کمیونسٹ ملک ہے اور جدید چین پاکستان کے بعد آذاد ہوا ہے لیکن سائنسی ترقی میں چین ہم سے کم از کم سو سال آگے ہے۔ اپنی مسلسل جدوجہد، محنت اور سائنسی ترقی کو اپنی اولین ترجیح رکھنے کی وجہ سے، پچھلے بیس سال کے قلیل عرصے میں اپنے ایجادات و مصنوعات کی موثر مارکیٹنگ کرکے آج دوسری سب سے بڑی عالمی طاقت بن کر ابھری ہے اور ترقی کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
چین ایک کمیونسٹ ملک ہے اور جدید چین پاکستان کے بعد آذاد ہوا ہے لیکن سائنسی ترقی میں چین ہم سے کم از کم سو سال آگے ہے۔ اپنی مسلسل جدوجہد، محنت اور سائنسی ترقی کو اپنی اولین ترجیح رکھنے کی وجہ سے، پچھلے بیس سال کے قلیل عرصے میں اپنے ایجادات و مصنوعات کی موثر مارکیٹنگ کرکے آج دوسری سب سے بڑی عالمی طاقت بن کر ابھری ہے اور ترقی کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان اس وقت سائنسی اور معاشی میدان میں کہاں کھڑا ہے سب پاکستانیوں کو بخونی پتہ ہے۔ پاکستان کی یہ حالت حکمرانوں کی ناقص پالیسی اور نامناسب قومی ترجیحات ہیں۔ ہمارے حکمران قومی ترقی کی بجاۓ ذاتی منفعت دیکھتے رہے اور ملکی بجٹ ایسے غیر ضروری منصوبوں پہ لگایا جن کا قومی ترقی و خوشحالی سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ جس کی وجہ سے آج پوری قوم دنیا میں رسوا ہو رہی ہے۔ غربت دن بدن بڑھ رہی ہے امیر مزید امیر ہوتا جا رہا ہے اور غریب غریب تر۔
ماضی کے مسلم سائنسدانوں کے سائنسی کارناموں اور خدمات کو اپنے کھاتے میں ڈال کر اترانے اور جتانے والے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے مجاہدوں کو اب خواب غفلت سے جاگ کر حقیقت حال کا بغور مطالعہ کرنا ہوگا اور اپنے گریباں میں جھانکنا ہوگا۔ اپنے ذہنی سوچ کو وسیع کرکے علم جہاں سے بھی ملے اور جسے بھی ملے حاصل کرنے کی ترغیب دینی ہوگی۔ چاہے اس کے لیے چین جانا پڑے۔ یہی اسلامی درس ہے۔
دنیا دن دگنی اور رات چگنی ترقی کر رہی ہے آنے والے وقت میں وہی اقوام زندہ و پائندہ رہیں گی جنہوں نے سائنس میں ترقی کی ہوگی۔ سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بھی اپنی ترجیحات کو سائنسی رخ دینا ہوگا۔
No comments:
Post a Comment